Tuesday, July 30, 2019

احمد ندیمؔ قاسمی

آج ممتاز شاعر،افسانہ نگار،صحافی،ادیب ،مدیر اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی کا یوم وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد ندیمؔ قاسمی
پیدائشی نام احمد شاہ
قلمی نام عنقا
تخلص ندیم
ولادت 20 نومبر 1916ء خوشاب
ابتدا لاہور، پاکستان
وفات 10 جولائی 2006ء لاہور
اصناف ادب شاعری، افسانہ
ذیلی اصناف غزل، نظم
ادبی تحریک ترقی پسند
تصنیف اول :پہلی نظم 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر
احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء) پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے کچھ اوپر کتابیں تصنیف کیں .

ابتدائی حالات

احمد ندیمؔ قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔

تعلیم

آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت، زہد تقویٰ کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے ندیم کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920 میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا ۔ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں مذہبی، عملی، اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔1921-25 میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930-31 میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931 صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں بی۔ اے۔ کیا۔

حالات زندگی

قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لاابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا۔

انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’’پھول‘‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لی۔ ’’پھول‘‘ بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں ۔

ملازمت

1936 میں ریفارمزکمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور 1937تک یہیں کام کرتے رہے۔ 1939-41 کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی ۔

1939ء میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہوگئے۔ 1942 میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے۔ تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے 1945-48 میں ریڈیوپشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے۔

دور عروج

شہرت

قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور اور ’’زمیندار‘‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ۔

صحافتی سرگرمیاں

1941-45 میں ہفت روزہ’پھول‘
’تہذیبِ نسواں‘ 1943-45
ماہنامہ ادبِ لطیف
1947-48 میں ماہنامہ سویرا (چار شماروں)
1950 میں ماہنامہ ’’سحر‘‘ لاہور (ایک شمارہ)
1953-59 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کی ادارت
1964 سے ماہنامہ ’’فنون‘‘کی ادارت
1952 میں روزنامہ ’امروز‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھتے رہے
روزنامہ ’امروز‘ لاہوراخبارکے ایڈیٹربن جانے پر کالم ’’پنج دریا‘‘ بھی لکھتے رہے۔
1959 میں امروز سے الگ ہونےپر روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں ’’موج در موج‘‘ اور ’پنج دریا‘ کے نام سے فکاہیہ کالم نویسی۔
1964-70 میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کی شروعات کی مگر پنج دریا کے بجائے نام ’’عنقا‘‘ رکھ لیا۔
1970 کے دوران روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی میں کالم ’’لاہور۔ ۔ ۔ لاہور ہے۔‘‘
پھر جنگ کو چھوڑ کر روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی میں فکاہیہ کالم ’’موج در موج‘‘ اور ہفتہ وار کالم ’’لاہوریات‘‘ پیش کرتےرہے۔
اپریل 1972 میں دوبارہ امروز میں وہی کالم لکھنے لگے۔
1964 سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے۔
ہاجرہ مسرور سے مل کر (نقوش) کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے۔ حرف و حکایت والا کالم عنقا کے قلمی نام سے لکھتے رہے ہیں۔
(فنون) ادبی پرچہ ان کے زیر نگرانی نکل رہا تھا ۔

بے شمار کتب لیکن اور ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ افسانے اور غزل کے حوالے بہت شہرت حاصل کی۔

ادبی کارہائے نمایاں

پہلا شعر: 1926-27 میں پہلا شعرکہا۔
پہلی مطبوعہ تخلیقات:
پہلی نظم 1931 میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پرکہی جو روز نامہ ’سیاست‘ لاہور میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ 1942 میں اردو اکیڈمی لاہور سے اور پہلا افسانوی مجموعہ 1939 میں شائع ہوا۔
انجمن ترقی پسند

1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے لیکن آگے چل کر جب انجمن نظریاتی تشدد پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

مطبوعات

افسانوی مجموعے

چوپال (دارالاشاعت پنجاب لاہور 1939)
بگولے (مکتبہ اردو لاہور 1941)
طلوع و غروب (مکتبہ اردو، لاہور، 1942)
گرداب (ادارہ اشاعت اردوحیدرآباد دکن1943)
سیلاب (ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن 1943)
آنچل(ادارہ فروغ اردو، لاہور 1944)
آبلے (ادارہ فروغِ اردو لاہور 1946)
آس پاس (مکتبہ فسانہ خواں، لاہور 1948)
درو دیوار (مکتبہ اردو،لاہور1948)
سناٹا (نیا ادارہ لاہور 1952)
بازارِ حیات (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1959)
برگِ حنا (ناشرین، لاہور 1959)
سیلاب و گرداب(مکتبہ کارواں، لاہور 1961)
گھر سے گھر تک (راول کتاب گھر،راولپنڈی1963
کپاس کا پھول (مکتبہ فنون، لاہور 1973)
نیلا پتھر (غالبپبلشرز، لاہور 1980)
کوہ پیما (اساطیر، لاہور۔ 1995)

شاعری

دھڑکنیں (قطعات، اردو اکیڈمی۔ لاہور) 1942
رِم جھم (قطعات و رباعیات، ادارہفروغِ اردو۔ لاہور 1944
جلال و جمال (شاعری۔ نیا ادارہ، لاہور 1946)
شعلۂ گُل (قومی دارا لاشاعت لاہور 1953)
دشتِ وفا (کتاب نما، لاہور 1963)
محیط(التحریر، لاہور 1976)
دوام (مطبوعات لاہور 1979)
لوح و خاک (اساطیر لاہور 1988)

تحقیق و تنقید

تہذیب و فن (پاکستان فاؤنڈیشنلاہور 1975)
ادب اور تعلیم کے رشتے (التحریر، لاہور 1974)
علامہ محمد اقبال

ترتیب و ترجمہ

انگڑائیاں (مرد افسانہ نگاروں کا انتخاب، ادارہاشاعت اردو حیدرآباد دکن 1944)
نقوشِ لطیف (خواتین افسانہ نگاروں کا انتخاب،ادارہ اشاعتِ اردو حیدرآباد دکن 1944)
پاکستان کی لوک کہانیاں (از میریلن سرچ،ترجمہ، شیخ علی اینڈ سنز لاہور)
کیسر کیاری (مضامین، ڈرامے، تراجم، مکتبہ شعرو ادب، لاہور 1944
منٹو کے خطوط بنام احمد ندیم قاسمی (ترتیب، کتاب نما،لاہور 1966
نذیر حمید احمد خاں (ترتیب، مجلس ترقی ادب، لاہور 1977) میرے ہم سفر

بچوں کا ادب

تین ناٹک (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944
دوستوں کیکہانیاں (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944
نئی نویلی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی،لاہور 1944)

قاسمی سے متعلق کتابیں اور خصوصی نمبر

ندیم کی شاعری اورشخصیت (تحقیق) جمیل ملک۔
احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانے، مرتبہ مظفر علی سید
ندیم نامہ مرتب محمد طفیل، بشیر موجد مجلسِ ارباب فن، لاہور 1974
مٹی کا سمندر مرتب ضیا ساجد مکتبہ القریش لاہور 1991
احمد ندیم قاسمی۔ ۔ ۔ایک لیجنڈ از شکیل الرحمٰن۔اساطیر لاہور
ندیم نمبر مرتب صہبا لکھنوی ماہنامہافکار کراچی 1976
احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن مرتب : نند کشور و کرم۔عالمی اردو ادب دہلی۔1996۔
ہندی میں ’’اردو کہانی کار احمد ندیم قاسمی‘‘ مرتب نند کشور وکرم اندر پرستھ پرکاشن دہلی۔

اس کے علاوہ انگریزی، روسی، چینی،جاپانی، ہندی، پنجابی، بنگلہ، سندھی، گجراتی مراٹھی اور فارسی وغیرہ متعدد زبانوںمیں کہانیوں اور شاعری کے تراجم۔

اعزازات و انعامات

آدم جی ادبی ایوارڈبرائے دشتِ وفا (شاعری۔1963)
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے محیط (شاعری۔ 1976)
آدم جی ادبی ایوارڈ برائے دوام (شاعری۔ 1979)
پرائیڈ آف پرفارمنس حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ سول اعزاز (1968)
ستارۂ امتیاز حکومتِ پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز (1980)
عالمی فروغِ اردو ادب، دوحہ قطر۔

وفات

احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریبا 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہو گیا۔

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ھے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ھے کچھ اور ہویدا تیرا

کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ھے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ھے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ھے سہارا تیرا

دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ھے سایہ تیرا

تو بشر بھی ھے مگر فخرِ بشر بھی تو ھے
مجھ کو تو یاد ھے بس اتنا سراپا تیرا

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ھے عالمِ بالا تیرا

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ھے ستارا تیرا

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ھے آج بھی صحرا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ھےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ھے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ھے مسجدِ اقصی تیرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شبِ فِراق جب مژدۂ سَحر آیا
تو اِک زمانہ تِرا مُنتظر نظر آیا

تمام عُمر کی صحرا نوَردِیوں کے بعد
تِرا مقام سرِ گردِ رہگُزر آیا

یہ کون آبلہ پا اِس طرف سے گُذرا ہے
نقُوش پا میں جو پُھولوں کے رنگ بھر آیا

کِسے مجال، کہ نظّارۂ جمال کرے
اِس انجُمن میں جو آیا، بَچشمِ تر آیا

تِری طَلب کے گھنے جنگلوں میں آگ لگی
مِرے خیال میں، جب وہمِ رہگُُزر آیا

سِمَٹ گیا مِری بانہوں میں جب وہ پیکرِ رنگ
تو اُس کا رنگ مجھے دُور تک نظر آیا

اِس آرزُو میں، کہ ضد کبریا کی پُوری ہو
ندیم خاک پہ، افلاک سے اُتر آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیراں حیراں کونپل کونپل کیسے کِھلتے پُھول یہاں
تنے ہُوئے کانٹوں کے ڈر سے پُوجی گئی ببول یہاں

کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں، غنچے کٹ کے شگفتہ ہُوئے
کاش یہ فصلِ خُونِ بہاراں اور نہ کھینچے طُول یہاں

شاید آج بھی جاری ہے آدم کا سلسلۂ اُفتاد
تھی نہ وہاں جنّت بھی گوارا اور قبوُل ہے دُھول یہاں

یارو یہ سنّاٹا تو توڑو ، گیت نہیں تو چیخ سہی
رُلوانا قانون یہاں کا، رو لینا معمُول یہاں

پل پل میں تاریخ چھپی ہے، گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیم
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بُھول یہاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیارِ عشق کا یہ حادثہ عجیب سا تھا
رُخِ رقیب پہ بھی پرتوِ حبیب سا تھا

فراق زخم سہی، کم نہ تھی جراحتِ وصل
معانقہ مرے محبوب کا، صلیب سا تھا

ترے جمال کی سرحد سے کبریا کا مقام
بہت قریب تو کیا تھا، مگر قریب سا تھا

سنی ہے میں نے صدائے شکستِ نکہت و رنگ
خزاں کی راہ میں ہر پھول ، عندلیب سا تھا

برادرانِ وطن کے سلوک کی سوگند
ندیمؔ یوسفِ کنعاں کا ہم نصیب سا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھلا کیا پڑھ لیا ہے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں

کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دکھ پہ بھیگنا بھولی نہیں آنکھیں
ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں

نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک شخص کو دل سے لگا رکھتا
میں دشمن کو بھی گنتا ہوں محبت کے سفیروں میں

سبیلیں جس نے اپنے خون کی ہر سو لگائی ہوں
میں صرف ایسے غنی کا نام لکھتا ہوں امیروں میں

بدن آزاد ہے، اندر میرے زنجیر بجتی ہے
کہ میں مختار ہو کر بھی گنا جاؤں اسیروں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں
نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید
میں مجسم شبِ تنہائی ہوں
ہے سفر شرط مجھے پانے کی
میں کہ اک لالۂ صحرائی ہوں
سیدھے رستے پہ چلوں تو کیسے
بھولی بھٹکی ہوئی دانائی ہوں
مجھ سے خود کو نہ سمیٹا جائے
اور خدائی کا تمنائی ہوں
میرے ماضی کے اندھیروں پہ نہ جا
صبحِ آئندہ کی رعنائی ہوں
کاش یہ جانتا دشمن میرا
میں ہر انسان کا شیدائی ہوں
میں پہاڑوں کی خموشی ہوں ندیم
اور میں بحر کی گویائی ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھلا میری زباں پر شکوہ کب تھا
اگر تھا بھی تو یکسر زیرِ لب تھا
میں سچ کی جستجو میں ہوں ازل سے
یہی طُولِ مسافت کا سبب تھا
مرے کِیسے میں جو دولت بھری تھی
مرا سرمایۂ شعر و ادب تھا
بدلتے ہی نہیں معیار میرے
وہی غم اب بھی ہے ، جیسا کہ تب تھا
یقیناً ظلم ٹُوٹا ہے کسی پر
اندھیرا ورنہ اتنا گہرا کب تھا
ندیم ارزاں نہیں تھے میرے سجدے
مرا معبود صرف اِک میرا رب تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے
وہ زود رنج تو ہے، وہ وفا شناس بھی ہے
تقاضے جِسم کے اپنے ہیں، دل کا مزاج اپنا
وہ مجھ سے دور بھی ہے، اور میرے آس پاس بھی ہے
نہ جانے کون سے چشمے ہیں ماورائے بدن
کہ پا چکا ہوں جسے، مجھ کو اس کی پیاس بھی ہے
وہ ایک پیکرِ محسوس، پھر بھی نا محسوس
میرا یقین بھی ہے اور میرا قیاس بھی ہے
حسیں بہت ہیں مگر میرا انتخاب ہے وہ
کہ اس کے حُسن پہ باطن کا انعکاس بھی ہے
ندیم اُسی کا کرم ہے، کہ اس کے در سے ملا
وہ ا یک دردِ مسلسل جو مجھ کو راس بھی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیرا دہلیز نشین
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تیری قربت میں کٹے
جیسے اک عمر گذار آیا ہوں
جب بھی میں ارضِ مدینہ پہ چلا
دل ہی دل میں بہت اِترایا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اک ہالہء نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
یہ کہیں خامیء ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں
مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں
حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں
ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا
چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں
میرے کِیسے میں تو اک سُوت کی انٹی بھی نہ تھی
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں
رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں
چُن لے بازارِ ہنر سے کوئی بہروپ ندیمؔ
اب تو فنکار بھی شامل ہیں اداکاروں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا
اک کھنڈر مجھکو عطا کیا کرتا
جس اندھیرے میں ستارے نہ جلے
ایک مٹی کا دیا کیا کرتا
ریت بھی ہاتھ میں جس کے نہ رکی
وہ تہی دست دعا کیا کرتا
ڈھب سے جینا بھی نہ آیا جس کو
اپنے مرنے کا گلہ کیا کرتا
اس کا ہونا ہے مرے ہونے سے
میں نہ ہوتا تو خدا کیا کرتا
تو نے کب مجھ کو دیے میرے حقوق
میں ترا فرض ادا کیا کرتا
ایک دھتکار تو جھولی میں پڑی
تو نہ ہوتا تو گدا کیا کرت
جو نہ سمجھا کبھی مفہومِ وفا
اپنا وعدہ بھی وفا کیا کرتا
تشنہ لب آئے مگر ڈوب گئے
چشمہء آبِ بقا کیا کرتا
نکہت و رنگ کا پیاسا تھا ندیم
صرف اک لمسِ ہوا کیا کرتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم گدا گر کے گدا گر ہی رہے
تم نے کشکول تہِ جامہء بانات چھپا رکھا تھا
اور چہرے پر انا تھی
جو ہمیشہ کی طرح جھوٹی تھی
وہ یہ کہتی ہوئی لگتی تھی کہ ہم بھیک نہیں مانگیں گے
یعنی مر جائیں گے لیکن کسی منعم کے درِ زر پر دستک نہ دیں گے
یہ جو گرتے ہوئے سکوں کی کھنک چار طرف گونجی ہے
یہ شنیدہ ہے کئی برسوں سے
اور کشکول کا لہجہ بھی وہی ہے جو ہمیں ازبر ہے
لاکھ انکار کرو لاکھ بہانے ڈھونڈو
تم گداگر کے گداگر ہی رہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے
دلِ بے تاب کو برما رہا ہے
مجھے کیا چاہئے اس سے زیادہ
میں روتا ہوں کوئی شرما رہا ہے
فرشتے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں شعلے
کوئی عاشق بنایا جا رہا ہے
خمیر اک پیکرِ زھرہ جبیں کا
ستاروں سے اٹھایا جا رہا ہے
یہ آنسو؟۔۔کون جانے ان کا مطلب!
پرانا واقعہ یاد آرہا ہے
مجھے یاد آرہا ہے اک حسیں خواب
دلِ مجبور بیٹھا جا رہا ہے
کسی نے لطف کی نظروں سے دیکھا
گیا وقت آج واپس آرہا ہے
مرے مقصد کو بھی کوئی سمجھتا!
مجھے سارا جہاں سمجھا رہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخری سجدہ
مِری زندگی ترے ساتھ تھی، مِری زندگی ترے ہات تھی
مری روح میں ترا نور تھا مِرے ہونٹ پر تری بات تھی
مرے قلب میں ترا عکس تھا، مری سانس میں تری باس تھی
ترے بس میں میرا شباب تھا، مری آس بھی ترے پاس تھی
ترے گیت گاتی تھی جب بھی میں مجھے چھیڑتی تھیں سہلیاں
مگر اُن پہ کھُل نہ سکیں کبھی مری زندگی کی پہلیاں
میں ترے جمال میں محو تھی میں ترے خیال میں مست تھی
مجھے کیا سمجھتیں وہ لڑکیاں کہ میں اپنے حال میں‌ مست تھی
تری شان میں‌ مری شان تھی ترا دبدبہ مرا ناز تھا
تری دلبری مری جان تھی تری عاشقی مرا راز تھا
مگر اب شباب گذر گیا تو ترا نیاز بھی مر گیا
مرے رُخ پہ جھُریاں دیکھ کر تو پلٹ کے جانے کدھر گیا
میں تری تلاش کروں مگر، مرا پستیوں میں مقام ہے
تو امیر ہے تو بلند ہے تو فلک پہ محوِ خرام ہے
اگر ایک پل کے لئے کبھی تو بلندیوں سے اُتر سکے
مِرے اُجڑے پجڑے دیار سے اگر ایک بار گذر سکے
تو مرے خلوص کا واسطہ، مری آرزو، مری آس، آ
مری بات سُن، مری بات سُن، مرے پاس آ، مرے پاس آ
نہ طلب کروں گی کرم ترا کوئی دوش بھی نہ دھروں گی میں
ترے پائے ناز پہ سر رگڑ کے بس ایک سجدہ کروں گی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں
ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں
پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں
پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اُجڑی ہوئی محفل بھی سجائیں
پھر لوٹ کے آئیں گے یہیں قافلے والے
اُٹھتی ہیں اُفق سے کئی غمناک صدائیں
شاید یہی‌ شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں
اے کاش ترا پاس نہ ہوتا مرے دل کو
اٹھتی ہیں پر رک جاتی ہیں سینے میں‌ صدائیں
اک آگ سی بھر دیتا ہے رگ رگ میں تبسّم
اس لطف سے اچھی ہیں حسینوں کی جفائیں
معبود ہو اُن کے ہی تصّور کی تجلّی
اے تشنہ لبو آؤ!‌ نیا دَیر بنائیں
ہم سنگِ دریا پہ بے ہوش پڑے ہیں
کہہ دے کوئی جبریل سے، بہتر ہے، نہ آئیں
ہاں، یاد تو ہوگا تمہیں راوی کا کنارا
چاہو تو یہ ٹوٹا ہوا بربط بھی بجائیں
توبہ کو ندیم آج تو قربان کرو گے
جینے نہیں دیتیں مجھے ساون کی گھٹائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوں
یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آئيگی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا
اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں
اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں
ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں
وہ کڑا موڑ ہے ہمیں درپیش
راستے ہر طرف نکلتے ہیں
کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی
دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں
وہ ہوئیں بارشیں، کہ کھیتوں میں
کرب اگتے ہیں ، درد پلتے ہیں
پتھروں کا غرور ختم ہوا
اب اِنساں شرر اگلتے ہیں
ٹھوکریں کھا رہے ہیں صدیوں سے
گو دلوں میں چراغ جلتے ہیں ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد ندیم قاسمی کی لازوال تحریر
عالاں

اماں ابھی دہی بلو رہی تھیں کہ وہ مٹی کا پیالہ لئے آ نکلی۔یہ دیکھ کر کہ ابھی مکھن ہی نہیں نکالا گیا تو لسسی کہاں سے ملے گی؟وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ واپس چلی جائے یا وہیں کھڑی رہے۔
”بیٹھ جاؤ عالاں ! " اماں نے کہا،ابھی دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی ہو؟
جی اچھی ہوں !
وہ وہیں بیٹھ گئی جہاں کھڑی تھی۔کچھ دیر کے بعد اماں بولیں ،اب میں مکھن نکالنے لگی ہوں ،برا نہ ماننا۔۔۔۔۔۔۔
نیت بری نہ ہو تب بھی نظر لگ جاتی ہے ! ابھی پچھلے دنوں نوراں نے مجھے مکھن کا پیڑا نکالتے دیکھا تھا تو دوسرے دن مرغی کے انڈے کے برابر مکھن نکلا۔۔۔۔۔۔اور اُس سے اگلے دن چڑیا کے انڈے کے برابر۔۔۔۔۔گائے کو تین دن مرچوں کی دھونی دی تو نظر اُتری !
عالاں گٹکی ”نظر تو کبھی کبھی میری بھی لگتی ہے بی بی جی ! اس سے پہلے آپ کا شیشے کا ایک گلاس توڑ چکی ہوں ۔”
ہاں ہاں ! اماں کو یاد آگیا ۔
تم نے کہا ! ہائے بی بی جی ! کیسا صاف شفاف ہے کہ نظر آر پار جاتی ہے ۔اور پھر یوں ہی پڑے پڑے چھناکے سے ٹوٹ گیا ! میں تو حیران رہ گئی۔
پھر اُنہوں نے عالاں کو ڈانٹا مگر اُس ڈانٹ میں غصہ نہیں تھا ۔لو ! ۔۔۔۔۔اب پرلی طرف دیکھو !
اور وہ مسکراتی ہوئی ایک طرف گھوم گئی اور سامنے دیکھنے لگی سامنے میں بیٹھا تھا ۔مجھے دیکھتے ہی وہ ڈوپٹے کا پلو آدھے سر پر سے کھینچ کر ماتھے تک لے آئی اور بولی ”بی بی جی ! اندر چھوٹے میاں جی تو نہیں بیٹھے ؟
اری ! وہی عارف تو ہے !۔۔۔۔۔۔۔رات آیا ہے ۔
عالاں اُٹھ کر دروازے تک آئی اور بولی ،رد بلائیں دور بلائیں۔
کیسی ہو عالاں ؟ میں نے پوچھا۔
جی اچھی ہوں ،وہ بولی ۔
پھر اُس کے چہرے پر شرارت چمکی ” پہلے تو میں آپ کو پہچانی ہی نہیں ! میں سمجھی،کوئی بچہ مونچھیں لگائے بیٹھا ہے ”
اس پر اماں کی ہنسی چھوٹ گئی ،توبہ ہے ۔کمبخت ایسی باتیں کرتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔توبہ ہے !
عالاں دہلیز پر یوں بیٹھ گئی کہ اُس کا ایک پاؤں باہر صحن میں تھا اور ایک کمرے کے اندر ۔
عارف میاں ! پردیس میں آپ کیا کرتے ہیں ؟
اُس نے مجھ سے یوں پوچھا جیسے چوپال میں بیٹھی گپ لڑا رہی ہے۔ساتھ ہی وہ المونیم کے ایک پیالے کو فرش پر ایک انگلی سے مسلسل گھمائے جا رہی تھی۔
میں نے کہا نوکری کرتا ہوں روپیہ کماتا ہوں ۔
بی بی جی کو کتنا بھیجتے ہیں ؟ اُس نے شرارت سے مسکرا کر پوچھا !
اے لڑکی ! اماں نے اُسے ڈانٹا ،اپنی عمر کے لڑکوں سے یوں باتیں نہیں کرتے ۔اب تو چھوٹی نہیں ہے ۔۔۔۔۔کیا ابھی تک تجھے کسی نے نہیں بتایا کہ تو بڑی ہوگئی ہے ؟
وہ دہلیز پر بیٹھی بیٹھی اماں کی طرف گھوم گئی۔اب اُس کے دونوں پاؤں صحن میں تھے اور بالوں کا ایک ڈھیر کمرے میں تھا ۔کون بتائے بی بی جی ؟
وہ بولی !اماں ابا ہوتے تو بتاتے !
اُنہیں تو خدا کے پاس جانے کی اتنی جلدی پڑی تھی کہ میرے سر پر سے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو انتظار بھی نہیں کیا کہ کوئی اس لڑکی کہ سر پر ہاتھ رکھے تو چلیں ،عالاں کی آواز کو آنسوؤں نے بھگو دیا تھا۔
میں نے کہا ! عالاں ۔۔۔۔تمہاری ماں تو کب کی چل بسی تھی کیا باپ بھی چل دیا ؟
اب کے گھوم کر اُس نے دونوں پاؤں کمرے میں رکھ دئیے اور بولی ،جی ! وہ بھی چلا گیا۔میں لڑکا ہوتی تو شائد مجھے جوتے گانٹھنا سکھا جاتا پر وہ مجھ سے روٹیاں ہی پکواتا رہا۔اب میں ایک موچی کی بیٹی ہوں پر اپنے جوتے دوسروں سے مرمت کرواتی ہوں ۔
تو کیا ہوا ؟ اماں بولیں ، تجھے صرف جوتے گانٹھنا نہیں آتے نا! باقی تو سب کام آتے ہیں ۔اپنی محنت سے کماتی اور کھاتی ہو ۔سارا گاؤں تمہاری تعریف کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔لو لسسی لے لو !
عالاں جو اماں کی گفتگو کے دوران میں انہی کی طرف گھوم گئی تھی ،اُٹھی اور جا کر پیالہ اماں کے پاس رکھ دیا۔
وہ لسسی کا پیالہ لے کر جانے لگی مگر چند قدموں کے بعد ایک دم رک گئی اور پلٹ کر بولی !
آج بھی چکی پیسنے آ جاؤں بی بی جی ؟
آ جانا آ جانا ! اماں بولیں ،آٹا تو ڈھیروں پڑا ہے پر عارف کے ابا کی برسی بھی تو زیادہ دور نہیں ہے ۔کئی بوریوں کی ضرورت پڑے گی ۔۔۔۔۔۔آ جانا !
جی اچھا ! وہ بولی ، پھر وہیں کھڑے کھڑے مجھ سے پوچھا ،
عارف میاں ! آپ کتنی چھٹی پر آئے ہیں ؟
میں نے کہا ! میں ابا کی برسی کر کے جاؤں گا ،بولی ،پھر تو بہت دن ہیں۔
میں جب گاؤں میں اِدھر اُدھر گھوم کر واپس آیا تو وہ اندر ایک کوٹھریا میں بیٹھی چکی پیس رہی تھی ۔اوڑھنی اُس کے سر سے اُتر گئی تھی اور کھلے بال چکی کے ہر چکر کے ساتھ اُس کے چہرے کو چھپا اور کھول رہے تھے اُس نے ایک ٹانگ کو پورا پھیلا رکھا تھا نیلا تہہ بند اُس کی پنڈلیوں تک کھنچ گیا تھا۔اگر ایسی پنڈلی کو کاٹ کر اور شیشے کے مرتبان میں رکھ کر ڈرائنگ روم میں سجا دیا جائے تو کیسا رہے ! میں نے ادھر اُدھر دیکھا ! اماں کہیں نظر نہ آئیں تو میں پنجوں کے بل کوٹھریا تک گیا ۔
دروازے سے آتی ہوئی روشنی ایک دم کم ہوئی تو اُس نے چونک کر دیکھا ،چکی روک لی ،بالوں کو جُھک کر سمیٹا اور اوڑھنی کو سر پر کھینچ لیا مگر پھیلی ہوئی ٹانگ کو پھیلا رہنے دیا ۔پھر وہ چکی کی ہتھی کو تھام کر آہستہ آہستہ گھمانے لگی اور میری طرف دیکھتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس وقت میرا پہلا تاثر یہ تھا ایک ایک موچی کی بیٹی کی آنکھوں کو اتنا بڑا نہیں ہونا چاہیے غریب غرباء کو چھوٹی چھوٹی آنکھیں ہی کفایت کر جاتی ہیں۔
اُس کے چہرے پر شرارت تھی اور اس ڈر کے مارے کہ وہ کوئی فقرہ نہ مار دے میں نے پوچھا،اماں کہاں ہیں ؟
وہ بولی ! تو کیا آپ بی بی جی کو دیکھنے یہاں تک آئے تھے ؟
تو کیا تمھیں دیکھنے آیا تھا ؟ مجھے حملے کو موقع مل گیا۔اُس نے بس اتنا کیا کہ ٹنگ سمیٹی اور پھر پھیلا دی ۔پھر وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ میں نے پھر پوچھا ،اماں کہاں ہیں ؟
یہیں حویلی میں ہیں ! اس نے کہا !
آپ کے چچا کی بیٹی بیمار ہیں اُنہیں دیکھنے گئی ہیں ۔
میں نے کہا یہ جو تم پسائی کر رہی ہو اس کی کتنی اجرت لوگی ؟
دو دن کا آٹا تو مل ہی جائے گا ،اُس کے لہجے میں کاٹ سی تھی نہ جانے طنز کر رہی تھی یا اُس کا لہجہ ایسا تھا۔
اچھا دو دن گزر گئے تو پھر کیا کرو گی ؟
پھر آجاؤں گی آٹا پیسنے،پانی بھرنے یا چھتیں لیپنے۔
چھتیں لیپنے ! کیا تمھیں چھتیں لیپنا بھی آتا ہے ؟ میں نے سچ مچ حیرت سے پوچھا ۔
وہ بولی ! مجھے کیا نہیں آتا عارف میاں !
بس ایک جوتے گانٹھنے نہیں آتے۔۔۔۔۔۔اور بہت کچھ آتا ہے۔
مثلاً کیا کیا آتا ہے ؟ میں نے شرارت سے پوچھا ۔
اور۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ بتانے لگی تھی مگر جیسے سوچ میں پڑ گئی اور آخر بولی ،سبھی کچھ آتا ہے ۔۔۔۔۔! آپ دیکھ لیں گے ہولے ہولے۔
چند لمحے وہ یوں چکی چلانے میں مصروف رہی جیسے مجھے بھول گئی ہے۔پھر چکی روک کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے کی طرف بڑھی۔میں ایک طرف ہٹا تو وہ باہر آگئی اور بولی ۔
پیاس لگی ہے۔۔۔۔۔۔پر بی بی جی کا کٹورا جھوٹا ہو جائے گا ،مجھے بک میں پلا دیجئیے !
تم کٹورے میں ہی پی لو ! میں نے کہا ،اور پھر ڈانٹ کے لہجے میں کہا ،چلو ! اُٹھاؤ کٹورا !۔۔۔۔۔۔پیو پانی !
اُس کی مسکراہٹ کتنی گلابی تھی۔۔۔۔۔۔
زندگی میں پہلی بار انکشاف ہوا کہ مسکراہٹ کا بھی رنگ ہوتا ہے ۔
وہ پانی پی چکی تو کٹورے کو کھنگالنے کے لئے اُس میں ذرا سا اور پانی ڈالا ۔میں نے کہا! بھر دو کٹورا !
وہ سمجھی شائد میں کٹورے کو پوری طرح پاک کرانا چاہتا ہوں۔کٹورا بھر گیا تو اُس نے میری طرف دیکھا اور میں نے کٹورا اُس کے ہاتھ سے اُچک کر منہ سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارف میاں جی۔۔۔۔۔۔۔۔وہ انتہائی حیرت اور صدمے سے بولی ،وہ حواس باختہ میری طرف دیکھتی رہی اور جب میں نے خالی کٹورا واپس کیا تو اُس کے ہاتھ میں رعشہ تھا اور اُس کی آنکھوں پر نمی کی ایک چمکیلی تہہ نمودار ہوگئی تھی اور اُس نے اوڑھنی کو یوں کس کے لپیٹ لیا تھا جیسے نماز پڑھنے چلی ہے۔
گاؤں میں جوان لڑکی کا ایک ایک قدم گنا جاتا ہے ایک ایک نظر کا حساب رکھا جاتا ہے بہت سے دوست بیٹھے تھے لڑکیوں کا ذ کر ہو رہا تھا فلاں ،فلاں کے ساتھ ہے ۔
میں نے کہا ! ایک لڑکی عالاں بھی تو ہے نادرے موچی کی بیٹی !!!!
اس پر سب ہنسنے لگے !!!!وہ ! ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے کہا وہ کسی کام کی نہیں ہے۔گھر گھر میں کام کرتی پھرتی ہے روپیہ کما رہی ہے خوب صورت ہے پر نکمی ہے ۔
ایک بار بیگو مونچھیل نے چھیڑا تو بولی ! میں موچی کی بیٹی ہوں کھال اُتار لیتی ہوں ۔بیگو کو اتنی شرم آئی کے سیدھا نائی کے پاس گیا اور مونچھوں کی نوکیں کٹوا دیں۔سب ہنسنے لگے اور دیر تک ہنستے رہے۔
میں نے کہا اگر وہ اتنی محنتی لڑکی ہے تو اُس کی عزت کرنی چاہیے۔
ایک بولا ! وہ عزت بھی تو نہیں کرنے دیتی۔
اس پر سب کو ایک بار پھر ہنسی کا دورہ پڑا ۔
دوسرا بولا !تمہارے ہاں تو وہ بہت کام کاج کرتی ہے کبھی اُس کی عزت کر کے دیکھو کھال اُتار لے گی ۔
وہ پھر ہنسنے لگے اور مجھے اُن کی ہنسی میں شریک ہونا پڑا مگر ۔۔۔۔۔۔مجھ سے اپنی ہنسی کی آواز پہچانی ہی نہیں گئی ،بلکل ٹین کے خالی کنستر میں کنکر بجنے کی آواز !
میں گھر واپس آیا تو وہ دروازے سے نکل رہی تھی ،چہرہ بالکل تپا ہوا تھا آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں میں چونکا اور پوچھا ،کیا بات ہے عالاں ؟ تم روتی رہی ہو ؟
وہ ہنسنے لگی اور ہنسی کے وقفے میں بولی ،روئیں میرے دشمن،میں کیوں روؤں ؟ میں تو مرچیں کوٹتی رہی ہوں عارف میاں !
تم مرچیں بھی کوٹ لیتی ہو ؟ میں نے پوچھا کوئی ایسا کام بھی ہے جو تمہیں کرنا نہ آتا ہو ! تم اتنے بہت سے کام کیوں کرتی ہو عالاں ؟
وہ بولی ،روپیہ کما رہی ہوں آپ تو جانتے ہیں روپے والے لوگ غریب لڑکیوں کو خرید لیتے ہیں میرے پاس روپیہ ہوگا تو مجھ پر نظر اُٹھانے کی کسی کو مجال نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔ہے کسی کی مجال ؟
پھر وہ میرے قریب آکر سرگوشی میں بولی ،میں نے آپ کے کرتے کے کئے ململ خریدی ہے اُس پر بیل بوٹے کاڑھ رہی ہوں !
یہ غلط بات ہے ! میں نے احتجاج کیا ،تمہاری محنت سے کمائے ہوئے روپے سے خریدا ہوا کرتا مجھے کاٹے گا۔
میں کسی کو بتاؤں گی تھوڑی ! وہ بولی ،آپ بھی نہ بتائیے گا ،پھر نہیں کاٹے گا ! وہ گٹکی پھر ایک دم گھبرا گئی ہائے میں مر جاؤں !
کہیں بی بی جی تو نہیں سُن رہیں !!!!!!!!
بی بی جی کے لفظ پر میرے جسم میں بھی سنسنی دوڑ گئی ۔اندر جھانکا تو صحن خالی تھا پلٹ کر دیکھا تو وہ جا چکی تھی۔
ٹھیک ہے ! میں نے سوچا، اچھی لڑکی ہے ! پیاری بھی ہے ! شوخ بھی ہے ! سب کچھ ہے مگر آخر موچی کی لڑکی ہے اور خاندان کے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ بلندی پر کھڑے ہوکر گہرے کھڈ میں نہیں جھانکنا چاہیے ورنہ آدمی گر جاتا ہے ۔
ابا کی برسی کے روز ہمارے ہاں پورا گاؤں جمع تھا ،مگر اُس ہجوم میں بھی عالاں کی دوڑ بھاگ نمایاں تھی وہ پھرکنی کی طرح گھومتی پھر رہی تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کہ اگر یہ لڑکی اس ہجوم سے نکل گئی تو برسی کی ساری تنظیم بگڑ جائے گی۔وہ بالکل برمے کی طرح ہجوم میں سے راستہ بناتی ہوئی پار ہوجاتی اور پلٹ کر غڑاپ سے امی کے کمرے میں گُھس کر کواڑ دھڑ سے بند کردیتی وہاں سے ہدایات لے کر وہ پھر باہر نکلتی اور پھر سے ہجوم میں برما لگا دیتی !
عشاء کی اذان تک سارا گاؤں کھانا کھا چکا تھا ۔خالی دیگیں ایک طرف سمیٹ دی گئی تھیں ۔نائی ،دھوبی،میراثی،موچی سبھی فارغ کر دئیے گئے تھے دن بھر کے ہنگامے کے بعد ایک بہت بھاری سناٹا گھر پر ٹوٹ پڑا تھا ۔آخری مہمان کو رخصت کر کے جب میں امی کے کمرے میں آیا تو مجھے یقین تھا کہ عالاں بیٹھی امی کے بازو اور پنڈلیاں دبا رہی ہوگی۔مگر امی تو اکیلی بیٹھی تھیں زندگی میں شائد پہلی بار امی کا لحاظ کئے بغیر میں اُن سے پوچھ بیٹھا ،عالاں کہاں ہے ؟
مگر امی اس سوال سے بالکل نہیں چونکیں ،بولیں ،وہ لڑکی ہیرا ہے بیٹا ! بالک ہیرا ! آج تو وہ میری آنکھیں ،میرے بازو میرا سب کچھ تھی ۔دن بھر کی تھکی ماندی تو تھی ہی ،کھانے بیٹھی تو دو چار نوالوں کے بعد جی بھر گیا ۔اُٹھ کر جانے لگی تو میں نے اُسے روکا اس کی دیگچی کو چاولوں سے بھرا اور اُسے لے جانے کو کہا تو وہ بولی !
یہ چاول تو مجھے عارف میاں دیتے ہوئے بھلے لگتے ! اوروں کو رخصت کرتے رہے پر اُنہوں نے مجھے تو پو چھا ہی نہیں !!!!!
میں نہیں لے جاتی ، اُس نے یہ بات ہنسی میں کہی ! پر اُس نے ٹھیک کہا بیٹا ! اندر کا سارا کام اُسی نے سنبھالے رکھا ۔۔۔۔۔۔۔تم تو سب کو رخصت کر ہی رہے تھے ،اُسے بھی رخصت کر دیتے ! ویسے تو وہ ہنستی ہوئی چلی گئی ہے پر اُسے ہنسنے کی عادت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بیٹا ! جن لوگوں کو ہنسنے کی عادت ہوتی ہے نا۔۔۔۔۔اُنہیں جب رونا بھی ہوتا ہے تو وہ ہنسنے لگتے ہیں ! جب وہ ہنستے ہیں تو اندر سے رو رہے ہوتے ہیں ۔تم نے ایک موچن سمحجھ کر عالاں کی عزت نہ کی حالانکہ عالاں کا اپنا مان ہے۔اُس کا یہ مان قائم رکھو بیٹا اور چاولوں کی یہ دیگچی اُسے دے آؤ ! تھوڑی دیر پہلے گئی ہے ،سوئی نہیں ہوگی ۔پھر کل صبح تم جا بھی رہے ہو ۔وہ کیا یاد کرے گی تمہیں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔جاؤ !
عالاں اپنے گھروندے کے دروازے کے پاس چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی ،میں نے پاس جا کر اُسے آہستہ سے پکارا تو وہ تڑپ کر یوں کھڑی ہو گئی جیسے اُس کے قریب کوئی گولا پھٹا ہے۔
عارف میاں جی !وہ بولی ،چاول دینے آئے ہونگے !
میں نے کہا ! ہاں ! چاول ہی دینے آیا ہوں ۔
لائیے ! اُس نے ہاتھ بڑھائے ،بی بی جی نے بتایا ہوگا ۔۔۔۔میں نے کیا کہا تھا ؟وہ ہنسنے لگی۔
ہاں ! بتایا ہے ۔میں نے کہا !
دیگچی لے کر اُس نے چارپائی پر رکھ دی اور بولی ،وہاں گھر میں دیتے تو زیادہ اچھا لگتا ! ویسے اب بھی اچھا لگ رہا ہے۔
کچھ سمحجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں ؟
آخر ایک بات سوجھی ،میں کل واپس جا رہا ہوں !
وہ مجھے معلوم ہے ! عالاں بولی ۔
معلوم تھا تو وہاں گھر میں ذرا سی دیر رک جاتیں !میں نے کہا ۔
وہ بولی ! آپ کے کرتے کا آخری ٹانکا باقی تھا وہ آ کے لگایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔بکسے میں اس کرتے کی جگہ تو ہوگی ناں ؟
اور ہاں صبح آپ کا بکسا اُٹھا کر بسوں کے اڈے پر مجھے ہی تو پہنچانا ہے ! بی بی جی نے کہا تھا۔
میں نے کہا تم کیا کچھ کر لیتی ہو عالاں ؟
چکی تم پیس لیتی ہو،چھتیں تم لیپ لیتی ہو، مرچیں تم کوٹ لیتی ہو،کنوئیں سے دو دو تین تین گھڑے تم پانی بھر کے لاتی ہو،پورے گھر کا کام تم سنبھال لیتی ہو ،کرتے تم کاڑھ لیتی ہو ،بوجھ تم اُٹھا لیتی ہو۔تم کس مٹی کی بنی ہوئی ہو عالاں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وہ خاموش کھڑی رہی ،پھر دو قدم اُٹھا کر میرے اتنے قریب آ گئی کہ مجھے اپنی گردن پر اُس کی سانسیں محسوس ہونے لگیں ۔۔۔۔۔۔
میں تو اور بھی بہت کچھ کر سکتی ہوں ! عارف میاں۔
اُس کی آواز میں جھنکار سی تھی ! آپ کو کیا معلوم ؟؟؟؟؟
میں اور کیا کچھ کر سکتی ہوں !!!!!!!!!
ذرا ساے وقفے کے بعد وہ بولی ”مجھ سے پوچھئیے نہ !۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اور کیا کچھ کر سکتی ہوں ؟؟؟؟؟؟؟
پہلی جماعت کے بچے کی طرح میں نے اُس سے پوچھا !
اور کیا کچھ کر سکتی ہو ؟؟؟؟؟؟
”میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیار بھی کر سکتی ہوں عارف میاں !!!!!!!!!!
اُس نے جیسے کائنات کا راز فاش کر دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود

Sunday, March 26, 2017

Salat o Salam by Aala Hazrat Brailvi

                     
Jinke Sajde Ko Mehraab E Kaaba Jhuki
Unn Bhavo(n) Ki Latafat Pe Laakho(n) Salaam
                      
Mustafa Jaan E Rehmat Pe Laakho(n) Salaam
Shamme Bazme Hidayat Pe Laakho(n) Salaam

Mehre Charkhe Nubuvvat Pe Roushan Durood
Ghul E Baagh E Risaalat Pe Laakho(n) Salaam

Shehre Yaare Iram Tajdaare Haram
Nau Bahaar E Shafa'at Pe Laakho(n) Salaam

Shab E Asra Ke Dulha Pe Da-im Durood
Nausha E Bazme Jannat Pe laakho(n) Salaam

Arsh Ki Zebo Zeenat Pe Arshi Durood
Farsh Ki Teebo Nuzhat Pe laakho(n) Salaam

Noor E Ain E Latafat Pe Alt(a)f Durood
Jaibo Jaine Najafat Pe Laakho(n) Salaam

Sarve Naaz E Kidam Maghze Raaze Hikam
Yakka Taaze Fazilat Pe Laakho(n) Salaam

Nukta E Sirre Wahdat Pe Yakta Durood
Markaze Daure Kasrat Pe Laakho(n) Salaam

Sahibe Raj'ate Shamso Saqqul Qamar
Naib E Daste Qudrat Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Zere Liwa Adamo Man Siva
Uss Sada E Siyadat Pe Laakho(n) Salaam

Arsh Ya Farsh Hai Jiske Zere Nagee(n)
Uski Qaahir Riyasat Pe Laakho(n) Salaam

Asle Har Buudo Bahbood Takhme Wajood
Qasim E Kanze Ne'amat Pe Laakho(n) Salaam

Fathe Baab E Nubuvvat Pe Behad Durood
Khatme Daur E Risalat Pe Laakho(n) Salaam

Sharke Anwaare Qudrat Pe Noori Durood
Fat-he Az Haare Qurbat Pe Laakho(n) Salaam

Be-Saheemo Q(a)simo Adeelo Maseel
Jouhar E Farde Izzat Pe Laakho(n) Salaam

Sirre Ghaib E Hidayat Pe Ghaibi Durood
Itre Jaibe Nihayat Pe Laakho(n) Salaam

Maahe Lahoote Khilwat Pe Laakho(n) Durood
Shahe Naasoot E Jalwat Pe Laakho(n) Salaam

Kanze Har Bekaso Benawa Par Durood
Harze Har Rafta Taaqat Pe Laakho(n) Salaam

Partave Isme Zaate Ahad Par Durood
Nuskha E Jaameiyyat Pe Laakho(n) Salaam

Mat-La'e Har Sa'adat Pe As'ad Durood
Maqtae Har Siyadat Pe Laakho(n) Salaam

Khalq Ke Dadras Sabke Fariyad Ras
Kahfe Roze Musibat Pe Laakho(n) Salaam

Mujhse Bekas Ki Daulat Pe Laakho(n) Durood
Mujhse Bebas Ki Quvvat Pe Laakho(n) Salaam

Shamme Bazme D(a)na Hu Mai Gum Kun Ana
Shar-He Matne Huviyyat Pe Laakho(n) Salaam

Intiha E Daayi Ibtida E Yakee
Jam'a Tafreeqo Kasrat Pe Laakho(n) Salaam

Kasrat E Baad E Qillat Pe Aksar Durood
Izzate Bood Zillat Pe Laakho(n) Salaam

Rabb E Aala Ki Ne'amat Pe Aala Durood
Haq Ta'ala Ki Minnat Pe Laakho(n) Salaam

Hum Ghareebo Ke Aaqa Pe Behad Durood
Hum Faqeeri Ki Sarwat Pe Laakho(n) Salaam

Farhate Jaane Mo'min Pe Behad Durood
Ghaize Qalbe Jalalat Pe Laakho(n) Salaam

Sab-Be Har Sabb Muntaha E Talab
Illate Julmo Illat Pe Laakho(n) Salaam

Masdar E Mujhariyyat Pe Azhar Durood
Mazhar E Masdariyyat Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Jalwe Se Murjhayi Kaliya(n) Khili
Uss Ghul E Paak Mimbat Pe Laakho(n) Salaam

Qadde Be-Saaya Ke Saya E Marhamat
Jille Mamdud E Raafat Pe Laakho(n) Salaam

Tairan E Quds Jiski Hai Kumriya(n)
Us Sahi Sarve Kaamat Pe Laakho(n) Salaam

Wasf Jiska Hai Aayina E Haqnuma
Us Khuda Saaz Tal'at Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Aage Sare Sarwara Kham Rahe
Uss Sare Taaje Rif'at Pe Laakho(n) Salaam

Wo Karam Ki Ghata Ghesu E Mushk Sa
Lakka E Abre Raafat Pe Laakho(n) Salaam

Lailatul Qadr Me Matlail Fajre Haq
Maang Ki Istiqamat Pe Laakho(n) Salaam

Lakht Lakhte Dile Har Jigar Chaak Se
Shaana Karne Ki Haalat Pe Laakho(n) Salaam

Duur O Nazdeek Ke Sunne Waale Wo Kaan
Kaan E La'le Karamat Pe Laakho(n) Salaam

Chashma E Mehr Me Mouje Noor E Jalaal
Us Raghe Hashemiyyat Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Mathe Shafa'at Ka Sehra Raha
Us Jabeen E Sa'adat Pe Laakho(n) Salaam

Jinke Sajde Ko Mehraab E Kaaba Jhuki
Unn Bhavo(n) Ki Latafat Pe Laakho(n) Salaam

Unki Aankho(n) Pe Wo Saaya Afghan Miza
Zilla E Qasr E Rahmat Pe Laakho(n) Salaam

Ashq Baari E Mizga(n) Pe Barse Durood
Silke Durre Shafa'at Pe Laakho(n) Salaam

Ma'ana E Qad Ra-aa Maqsad E Maa Tagaa
Nargis E Baaghe Qudrat Pe Laakho(n) Salaam

Jiss Taraf Uth Gayi Dam Me Dam Aa Gaya
Us Nigah E Inayat Pe Laakho(n) Salaam

Nichee Aankho(n) Ki Sharmo Haya Par Durood
Unchi Beene Ki Rifa’at Pe Laakho(n) Salaam

Jinke Aage Charage Qamar Jhilmilay
Un Azaaro Ki Tal’at Pe Laakho(n) Salaam

Unke Khad Ki Suhulat Pe Behad Durood
Unke Qad Ki Rishaqat Pe Laakho(n) Salaam

Jis Se Tareek Dil Jagmagane Lage
Us Chamak Waali Rangat Pe Laakho(n) Salaam

Chaand Se Muh Pe Taaba Darkhsha Durood
Namak Aagi Sabahat Pe Laakho(n) Salaam

Shabnam E Baagh E Haq Yani Rukh Ka Araq
Uski Sachhi Baraakat Pe Laakho(n) Salaam

Khat Ki Girde Dahan Wo Dilara Faban
Sabz E Nahre Rehmat Pe Laakho(n) Salaam

Rishe Khus Mu’atadil Marham E Reshe Dil
Hala E Mah E Nudrat Pe Laakho(n) Salaam

Patli Patli Ghul E Quds Ki Pattiya
Un Labo(n) Ki Nazakat Pe Laakho(n) Salaam

Wo Dahan Jiski Har Baat Wahee E Khuda
Chashma E Ilmo Hiqmat Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Paani Se Shadaab Jaan O Jinaa
Uss Dahan Ki Taravat Pe Laakho(n) Salaam

Jis Se Khari Kuve Shira E Jaa(n) Bane
Us Julale Halavat Pe Laakho(n) Salaam

Wo Jabaa(n) Jisko Sab Kun Ki Kunji Kahe
Uski Naafiz Huqumat Pe Laakho(n) Salaam

Uski Pyari Fasahat Pe Behad Durood
Sakee Dilkash Balaghat Pe Laakho(n) Salaam

Uski Baato(n) Ki Lazzat Pe Laakho(n) Durood
Uske Khutbe Ki Haibat Pe Laakho(n) Salaam

Woh Dua Jiska Joban Bahaar E Qubool
Us Naseem E Ijabat Pe Laakho(n) Salaam

Jinke Guchche Se Lachche Jhade Noor Ke
Un Sitaro Ki Nuzhat Pe Laakho(n) Salaam

Jiski Taskee(n) Se Rote Hue Has Pade
Us Tabassum Ki A'adat Pe Laakho(n) Salaam

Jis Me Nahre Hai Shiro Shakar Ki Rawa(n)
Us Gale Ki Nazarat Pe Laakho(n) Salaam

Dosh Bar Dosh Hai Jin Ke Shaane Sharaf
Aise Shaano Ki Shauqat Pe Laakho(n) Salaam

Hajre Aswad Ka'aba E Jaan O Dil
Yaani Mehre Nubuvvat Pe Laakho(n) Salaam

Ru-e Aaina E Ilme Pushte Huzoor
Pushti E Qasr E Millat Pe Laakho(n) Salaam

Haath Jis Samt Utha Ghanee Kar Diya
Mouje Behre Sama'at Pe Laakho(n) Salaam

Jisko Baare Do Aalam Ki Parwah Nahi
Aise Bazoo Ki Quvvat Pe Laakho(n) Salaam

Ka'aba E Deen O Imaa(n) Ke Dono Sutoo(n)
Sayyedaine Risalat Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Har Khat Main Hai Mouje Noor E Karam
Us Kafe Bahre Himmat Pe Laakho(n) Salaam

Noor Ke Chashme Lehraye Dariya Bahee
Ungliyo(n) Ki Karamat Pe Laakho(n) Salaam

Eid E Mushkil Kusha E Ke Chamke Hilaal
Nakhoono Ki Basharat Pe Laakho(n) Salaam

Raf'a E Zikre Jalalat Pe Arfa'a Durood
Sharhe Sadre Sadarat Pe Laakho(n) Salaam

Dil Samajh Se Waraa Hai Magar Yu Kahu
Guncha E Raaze Wahdat Pe Laakho(n) Salaam

Kul Jahaa(n) Milk Aur Jou Ki Roti Ghiza
Uss Shikam Ki Kana'at Pe Laakho(n) Salaam

Jo Ki Azme Shafa'at Pe Khinch Kar Bandhi
Us Qamar Ki Himayat Pe Laakho(n) Salaam

Ambiya Tah Kare Jaanu Unke Huzoor
Jaanuo Ki Wajahat Pe Laakho(n) Salaam

Saake Asl E Qidam ShaakhE Nakhle Karam
Sham'e Raah E Isabat Pe Laakho(n) Salaam

Khayi Quraa(n) Ne Khaaqe Guzar Ki Qasam
Us Kafe Paa Ki Hur mat Pe Laakho(n) Salaam

Jis Suhani Ghadi Chamka Taibah Ka Chaand
Us Dil Afroz Sa'at Pe Laakho(n) Salaam

Pehle Sajde Pe Rouze Ajal Se Durood
Yaadgari E Ummat Pe Laakho(n) Salaam

Zar'e Shadab E Har Zar'e Pur Sheer Se
Barkaate Reja'at Pe Laakho(n) Salaam

Bhaiyo Ke Liye Tark Pista(n) Kare
Doodh Peeto Ki Nisfat Pe Laakho(n) Salaam

Mahde Waala Ki Qismat Pe Behad Durood
Burje Maah E Risalat Pe Laakho(n) Salaam

ALLAH ALLAH Wo Bachpane Ki Phaban
Us Khuda Bhaati Surat Pe Laakho(n) Salaam

Uth-Te BuTo Ki Nashwo Numa Par Durood
Khilte Guncho Ki Nikhat Pe Laakho(n) Salaam

Fazl E Paidaishi Par Hamesha Durood
Khelne Se Karahat Pe Laakho(n) Salaam

A'etela E Jabillat Pe Aala Durood
A'etedal E Tivayat Pe Laakho(n) Salaam

Be Banavat Adaa Par Hazaro Durood
Be Takalluf Malahat Pe Laakho(n) Salaam

Bhini Bhini Mahak Par Mahakti Durood
Pyari Pyari Nafasat Pe Laakho(n) Salaam

Meethi Meethi Ibarat Pe Shiree(n) Durood
Achhi Achhi Isharat Pe Laakho(n) Salaam

Seedhi Seedhi Ravish Par Karoro(n) Durood
Saadi Saadi Tabi'at Pe Laakho(n) Salaam

Roze Garmo Shabe Teera Wo Taar Me
Koho Sahra Ki Khalvat Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Ghere Me Hai Ambiya O Malak
Us Jahangeer E Ba'sat Pe Laakho(n) Salaam

Andhe Sheeshe Jhalajhal Damakne Lage
Jalwa Rezi E Daawat Pe Laakho(n) Salaam

Lutf E Bedari E Shab Pe Behad Durood
Aalam E Khwab E Rahat Pe Laakho(n) Salaam

Kh(a)nda-e Subho Ishrat Pe Noori Durood
Giry(a) E Abre Rehmat Pe Laakho(n) Salaam

Nirmi E Khu E Leenat Pe Daim Durood
Garmi E Shaane Satavat Pe Laakho(n) Salaam

Jiske Aage Khinchi Gardane Jhuk Gayi
Us Khuda Dad Shoukat Pe Laakho(n) Salaam

Kisko Dekha Ye Moosa Se Pooche Koyi
Aankh Waalo Ki Himmat Pe Laakho(n) Salaam

Girde Mah Daste Anjum Me Rakhsha(n) Hilaal
Badr Ki Daf'e Zulmat Pe Laakho(n) Salaam

Shore Takbeer Se Thar-Tharati Zamee(n)
Zumbishe Joushe Nusrat Pe Laakho(n) Salaam

Na'araha E Dilera(n) Se Ban Gunjte
Gurrashe Kose Jur-at Pe Laakho(n) Salaam

Woh Chaka Chaak Khanjar Se Aati Sadaa
Mustafa Teri Soulat Pe Laakho(n) Salaam

Unke Aage Wo Hamza Ki Jaa(n)-Baaziya(n)
Shere Gurrane Satvat Pe Laakho(n) Salaam

Al Gharaz Unke Har mu Pe Laakho(n) Durood
Unki Har Khu Wa Khaslat Pe Laakho(n) Salaam

Unke Har Naam O Nisbat Pe Naami Durood
Unke Har Waqt O Haalat Pe Laakho(n) Salaam

Unke Maula Ki Un Par Karoro(n) Durood
Unke As-habo Itrat Pe Laakho(n) Salaam

Paar-Haye Suhuf Ghuncha E Qudus
Ahle Bait E Nubuvvat Pe Laakho(n) Salaam

Aab E Tathir Se Jis Me Paude Jame
Uss Riyaze Najaabat Pe Laakho(n) Salaam

Khuun E Khairur Rusul Se Hai Jinka Khameer
Unki Be Lous Tinat Pe Laakho(n) Salaam

Uss Batul E Jigar Para E Mustafa
Haj-La Aara E Iffat Pe Laakho(n) Salaam

Jiska Aanchal Na Dekha Maho Meher Ne
Uss Rida E Nazahat Pe Laakho(n) Salaam

Sayyeda Zahira Tayyeba Tahira
Jaan E Ahmad Ki Raahat Pe Laakho(n) Salaam

Hasne Mujtaba Sayyedul Askhiya(n)
Raakib E Doshe Izzat Pe Laakho(n) Salaam

Ouj E Mehre Huda Mouje Bahre Nida
Ruh E Rouhe Sakhavat Pe Laakho(n) Salaam

Shahad Khware Lu-aab E Zabaan E Nabi
Chaashni Geer Ismat Pe Laakho(n) Salaam

Uss Shaheed E Balaa Shahe Ghulghu Kabaa
Bekase Dashte Gurbat Pe Laakho(n) Salaam

Durre Durje Najaf Mehre Burje Sharaf
Range Ru E Shahadat Pe Laakho(n) Salaam

Ahle Islaam Ki Maadarane Shafeeq
Baanuvane Tahaarat Pe Laakho(n) Salaam

Jalw(a)-Giyyane Baitush-Sharaf Par Durood
Pard Giyyane Iffat Pe Laakho(n) Salaam

Siyyema Pahli Maa Kah-Fe Amno Amaa(n)
Haq Gujare Rifaqat Pe Laakho(n) Salaam

Arsh Se Jispe Tasleem Naazil Hui
Us Saraa E Salamat Pe Laakho(n) Salaam

Manzillum Min Kasab La Nasab La Sakhab
Aise Koshak Ki Zeenat Pe Laakho(n) Salaam

Binte Siddeeq Araam E Jaan E Nabi
Us Hareem E Bara-at Pe Laakho(n) Salaam

Yaani Hai Sura E Noor Jinki Gawah
Unki PurNoor Surat Pe Laakho(n) Salaam

Jinme Ruhul Qudus Be-Ijazat Na Jaaye
Un Suradiq Ki Ismat Pe Laakho(n) Salaam

Sahm'e Taabaane Kaashaana E Ijtehaad
Mufti E Chaar Millat Pe Laakho(n) Salaam

Jaa(n)-Nisaran E Badro Uhad Par Durood
Haq Guzaaran E Bai'at Pe Laakho(n) Salaam

Wo Daso Jinko Jannat Ka Muzda Mila
Uss Mubarak Jama'at Pe Laakho(n) Salaam

Khaas Uss Saabik E Saire Kurbe Khuda
Ouhad E Kamiliyat Pe Laakho(n) Salaam

Sai-E Mustafa Mai-E Istafa
Izzo Naaze Khilafat Pe Laakho(n) Salaam

Asdaqus-Sadeqi Sayyedul Muttaqi
Chashmo Goshe Vejarat Pe Laakho(n) Salaam

Woh Umar Jis Ke Aada Pe Shaida Sakar
Uss Khuda Dost Hazrat Pe Laakho(n) Salaam

Fareeqe Haqqo Baatil Imamul Huda
Taighe Maslule Shiddat Pe Laakho(n) Salaam

Tarjumaan E Nabi Ham-Zabaan E Nabi
Jaan E Shaan E Adaalat Pe Laakho(n) Salaam

Jaahid E Masjid E Ahmadi Par Durood
Ddoulat E Jaishe Usrat Pe Laakho(n) Salaam

Durre Mansoor Quraa(n) Ki Silke Bahee
Zouje Do Noor E Iffat Pe Laakho(n) Salaam

Yaani Usmaan Saahab Kamees E Huda
Hulla Pushe Shahadat Pe Laakho(n) Salaam

Murtaza Shere Haq Ashja-Ul Ashja-e
Saaqi E Sheero Sharbat Pe Laakho(n) Salaam

Asl E Nasl E Safaa Wajhe Wasle Khuda
Baab E Fasle Wilayat Pe Laakho(n) Salaam

Awwali Dafa E Ahle Rifzo Khuruj
Chaar Mi Rukne Millat Pe Laakho(n) Salaam

Shere Shamsheer-J(a)n Shahe Khaibar-Shikan
Parvat E Dost Qudrat Pe Laakho(n) Salaam

Maahi E Rifzo Tafzeel O Nasb O Khurooj
Haami E Deen O Sunnat Pe Laakho(n) Salaam

Momeni Peshe Fat-ho Pase Fat-h Sab
Ahle Khairo Adaalat Pe Laakho(n) Salaam

Jis Musalmaa(n) Ne Dekha Unhe Ik Nazar
Uss Nazar Ki Basaarat Pe Laakho(n) Salaam

Jinke Dushman Pe Laanat Hai ALLAH Ki
Un Sab Ahle Muhabbat Pe Laakho(n) Salaam

Baaqi E Saakiyaan E Sharaab E Tahur
Zain E Ahle Ibadat Pe Laakho(n) Salaam

Aur Jitne Hai Shehzade Uss Shah Ke
Un Sab Ahle Makaanat Pe Laakho(n) Salaam

Unki Baala Sharafat Pe Aala Durood
Unki Waala Siyadat Pe Laakho(n) Salaam

Shafa'e Maaliki Ahmad Imam E Haneef
Chaar Baagh E Imamat Pe Laakho(n) Salaam

Kaamilan E Tareeqat Pe Kaamil Durood
Haamilan E Shariat Pe Laakho(n) Salaam

Ghouse Aazam Ima Muttuka Wannuka
Jalwa E Shaan E Qudrat Pe Laakho(n) Salaam

Kutbe Abdaalo Irshaad O Rushdurshaad
Muh-yi-e Deen O Millat Pe Laakho(n) Salaam

Mard E Khaile Tareeqar Pe Behad Durood
Farde Ahle Haqeeqat Pe Laakho(n) Salaam

Jiski Mimbar Bani Gardan E Awliyah
Uss Qadam Ki Karamat Pe Laakho(n) Salaam

Shah E Barkaato Barkaate Peshiniya(n)
Nou Bahar E Tareeqat Pe Laakho(n) Salaam

Sayyid Aale Muhammad Imamur Rashheed
Ghul E Rouze Riyazat Pe Laakho(n) Salaam

Hazrat E Hamza Shere Khuda Wa Rasool
Zeenat E Qaadriyat Pe Laakho(n) Salaam

Naam O Kaam O Tano Jaan O Haal O Makaal
Sabme Achhe Ki Surat Pe Laakho(n) Salaam

Noor-Jaa(n) Itre-Majmu'a Aale Rasool
Mere Aaqa E Ne'amat Pe Laakho(n) Salaam

Zaibe Sajjada Sajjade Noori Nihaad
Ahmad E Noor Teenat Pe Laakho(n) Salaam

Be Azaabo Aetaabo Hisaabo Kitaab
Ta Abad Ahle Sunnat Pe Laakho(n) Salaam

Tere Un Dosto Ke Tufaile Khuda
Banda-E Nange Khilqat Pe Laakho(n) Salaam

Mere Ustaad Maa-Baap Bhai Behen
Ahle Wuldo Ashirat Pe Laakho(n) Salaam

Ek Mera Hi Rehmat Me D'awa Nahi
Shah Ki Saari Ummat Pe Laakho(n) Salaam

Kaash Mehshar Me Jab Unki Aamad Ho Aur
Bheje Sab Unki Shouqat Pe Laakho(n) Salaam

Mujhse Khidmat Ke Qudsi Kahe Haa Raza
Mustafa Jaan E Rehmat Pe Laakho(n) SalaamSa

Saturday, February 1, 2014

Yaar k Yaroon k naam:



Khuda ka naam ly kr dkhein,
Kiun na ik sajda kr k dkhein

Kch na kch keh ri ha har shaeh,
Kiun na aj samaat kr k dkhein

Mazi aur mustaqbil ma jee liay bht,
Kiun na aj haal ma reh kr dkhein

Firdous ka shauq,jahanum ka dar,
Kiun na ajj bhula kr dekhein

Hawas aur anna parasti sy door,
Kiun na ikhlas ka beag bo kr dkhein

Zahiri nazaroon sy hat kr
Kiun na haqeqat ko dil ma sama kr dkhein

Lafzon sy door,kitabon sy paray
Kiun na khud ko tatool kr dkhein

Tamaam kaabon sy rukh hata kr
Kiun na kaabay ka Kaaba dkhein.

Poet:
Nasr SJ
31/01/2014.

Wednesday, January 22, 2014

Pyaray Bhai Immad Sattar k naam:

Ik daur tha tm bachay thay
Mun k bht kachay thay

Dil k tm nazuk thay
chehray sy masoom thay

Khel khel ma bachpan guzara
Kbi abu ny,kbi mene mara

Thora bemaar ho to kya hua
Aj andhera ha to kia hua

Tofan ha to kia hua
Andhi ha to kia hua

Tm noor ho,aftaab ho
Hamaray sir ka taaj ho

Yeh tofaan yunhi tham jaey ga
Andhi yunhi ruk jaey ge

Arz hamari itni ha,tm sbr krna
Har muskil ma Rab ko yaad rakhna

Tmhara ghum hamein paigham dta ha
Immad ko Khuda ka salam dta ha

Tm Sher ho is jungle k
Phool ho is chaman k

Yunhi khusbu bant'ty rhna
Gulaab ki tarha mehktay rhna

Poet:
Nasr SJ
22/01/2014.

Tuesday, January 21, 2014

Naksh Chorh Jaein Gy.....

Safi Aslam k Naam:


Jahan sy guzrein gy, naksh chor jaein gy
Jan dy k dil ly jaein gy

Yeh daulat, yeh shohrat, yeh rang, yeh saaz
sub bay maeini ho jaein gy, wo bol, Bol jaein gy

Naiki badi, kamyabi nakami, haar jeet, jannat jahanum
baazi aisi khel jaein gy k sub waar jaein gy

Aag, pani, mitti, hawa yeh sub anasir
Bey zarar ho jaein gy, wo libaas orh jaein gy

naa Nasr ho ga , naa tum raho gy
wo ishq karein gy k khud ko bhool jaein gy

Poet:
Nasr SJ
17/01/2014

Wednesday, March 20, 2013

Zindagi guzaarna asaan lagta ha
Ishq be ab ik kaam lagta ha

Dard e Dil to daulat hoti ha
Phr hamein kiun yeh bhaar lgta ha

kabhi to har tarf to hta ha
kabhi haail darmayan ma nafs lagta ha

Janta hon Ishq aag ka darya ha
magar tairna is ma asaan lgta ha

mast rehna khayal e Yaar ma har waqt
yehi hamein ishq ka raaz lagta ha

baich do dil aey dewano
Yaar ka bazaar sar e aam lgta ha

Poet:
Nasr SJ
19/03/2013

Thursday, February 14, 2013

Dil ma khayal atay hain ajeeb sy
janay kia milay ga is naseeb sy

Dard, Takleef Ranj o Gham
kia yehi ha Rakht e Safar k liay

Phr khushi aur bahaar ha kis liay
yeh haar singhaar ha kis liay

Ayub ka Sabar aur Yaqoob ka Hijr
kia zaroori ha wasl k liay

Islam,Issaeyat,Yahoodiat ya koe Mazhab
kia zarori ha teray Ishq k liay

Mullah,Pandat,Paadri aur Mufti
Lazim han kia teri tashreeh k liay

mujay is badan ma qaid kia gya ha
kia jism zarori ha Rooh k liay

Poet:
Nasr SJ
14/02/2013